تقریباً چوبیس سال قبل یعنی 2001 کے اوائل میں، لاہور کی معروف درسگاہ، پنجاب یونیورسٹی، ایک غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہوئی۔ اس وقت یونیورسٹی کی ایک طالبہ، وجیہہ عروج، نے اپنی تعلیمی جدوجہد کے دوران ایک ایسا قانونی قدم اٹھایا جو نہ صرف میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا بلکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق پر ایک نئی بحث کا آغاز بھی ہوا۔
وجیہہ عروج، جو اُس وقت سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ تھیں، نے یونیورسٹی پر ایک کیس دائر کیا جو اپنے وقت میں خاصا منفرد اور دلچسپ نوعیت کا حامل تھا۔ ان کا موقف تھا کہ یونیورسٹی میں داخلے، امتحانی طریقہ کار، یا مخصوص تدریسی رویوں میں بعض ایسے پہلو شامل تھے جو نہ صرف غیر شفاف تھے بلکہ بعض اوقات طلبہ کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوتے تھے۔
وجیہہ نے اپنے کیس میں واضح کیا کہ بطور طالبہ، انہیں چند اساتذہ کے رویے، جانبدارانہ امتحانی نتائج اور تدریسی سسٹم میں شفافیت کی کمی جیسے معاملات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں میں طلبہ کی آواز کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، اور بہت سی بار طلبہ کے تحفظات کو صرف “شکایت” سمجھ کر رد کر دیا جاتا ہے۔
یہ مقدمہ ابتدا میں صرف ایک داخلی سطح کی کوشش سمجھی گئی، لیکن جلد ہی اسے میڈیا اور سوشل حلقوں میں کافی پذیرائی ملی۔ کئی طلبہ اور والدین نے وجیہہ عروج کے اس قدم کو سراہا اور اسے طلبہ کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔ اس کیس نے دیگر تعلیمی اداروں کو بھی جھنجھوڑا اور انہیں اپنے نظم و نسق پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کیا۔
پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے ابتدائی طور پر اس معاملے کو معمولی قرار دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی، لیکن عدالت میں کیس کی باقاعدہ کارروائی کے بعد، کئی اہم نکات پر بحث ہوئی۔ ان میں سب سے نمایاں مسئلہ تدریسی عمل کی شفافیت، امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال، اور طلبہ کو اپیل کا حق دینے سے متعلق تھا۔
اس کیس کے اثرات فوری طور پر سامنے نہیں آئے، لیکن آنے والے سالوں میں پنجاب یونیورسٹی سمیت دیگر اداروں نے اپنے اندرونی نظام میں چند اہم تبدیلیاں کیں۔ تدریسی عملے کے تربیتی سیشنز کا انعقاد کیا گیا، امتحانی نظام میں اپیل کی سہولت کو بہتر بنایا گیا، اور طلبہ کو “فیڈبیک میکانزم” کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کا موقع دیا گیا۔
وجیہہ عروج کا یہ اقدام نہ صرف قانونی طور پر ایک اہم مثال بنا بلکہ معاشرتی طور پر بھی یہ پیغام دیا کہ تعلیم صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا میدان بھی ہے جہاں انصاف، مساوات، اور حقوق کی بات بھی ہونی چاہیے۔
آج، چوبیس سال بعد، جب ہم اس واقعے کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طالبہ کے حوصلے اور استقامت نے کس طرح ایک بڑے نظام میں مثبت تبدیلی کی راہ ہموار کی۔ وجیہہ عروج کا یہ قدم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر آواز سچ پر ہو اور نیت خالص، تو ایک فرد بھی پورے نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔