دنیا بھر میں اسپتال وہ جگہ ہوتے ہیں جہاں لوگ صحت کی بحالی کے لیے آتے ہیں۔ نرسز کا کردار ان اداروں میں نہایت اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ مریضوں کی خدمت، تیمارداری اور دیکھ بھال میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتی ہیں۔ تاہم، بعض اوقات انسانی کمزوریاں، اخلاقی زوال اور غیر ذمہ دارانہ رویے ایسے افسوسناک واقعات کو جنم دیتے ہیں جو نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کے لیے عبرت کا باعث بنتے ہیں۔
یہ کہانی ایک ایسے مریض کی ہے جو کئی ہفتوں سے اسپتال میں زیر علاج تھا۔ نرس اس کی دیکھ بھال پر مامور تھی اور مریض سے گہری ہمدردی اور توجہ کے ساتھ پیش آتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ دونوں کے درمیان ایک غیر رسمی تعلق پیدا ہوا، جو رفتہ رفتہ جسمانی قربت میں تبدیل ہو گیا۔ ایسے تعلقات پروفیشنل ازم کی سراسر خلاف ورزی ہیں، اور صحت کے اداروں میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
ایک رات، نرس نے مریض کے ساتھ نجی تعلق قائم کیا۔ بدقسمتی سے، اس دوران مریض کو دل کا دورہ پڑا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ نرس نے فوراً میڈیکل عملے کو اطلاع دی، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ مریض کا دل پہلے ہی کمزور تھا، اور جسمانی مشقت کی وجہ سے وہ اس دباؤ کو برداشت نہ کر سکا۔
واقعہ میڈیا میں آتے ہی معاشرے میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اسپتال کی انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نرس کو معطل کر دیا اور واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا۔ اس کے بعد نرس نے عدالت میں اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگی اور کہا کہ وہ اپنے غیر اخلاقی عمل پر نادم ہے۔ عدالت نے قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علاج کا مشورہ بھی دیا تاکہ آئندہ وہ ایسی کسی حرکت کا اعادہ نہ کرے۔
یہ افسوسناک واقعہ ہمیں ایک بڑا سبق دیتا ہے۔ اسپتال جیسے مقدس ادارے میں مریضوں اور عملے کے درمیان پیشہ ورانہ حدود کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ نرسنگ کا پیشہ محض ایک نوکری نہیں بلکہ ایک خدمت ہے، جس میں انسانی جانوں کے ساتھ براہ راست واسطہ ہوتا ہے۔ کسی بھی طرح کی جذباتی یا جسمانی بے راہ روی نہ صرف فرد کی زندگی تباہ کر سکتی ہے بلکہ ادارے کی ساکھ اور اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچاتی ہے۔
آخر میں، اس واقعے کو صرف ایک افسوسناک خبر کے طور پر نہیں بلکہ ایک اخلاقی سبق کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی تربیت، پیشہ ورانہ اخلاقیات، اور انسانی جذبہ خدمت ہی وہ عناصر ہیں جو ایسے واقعات کی روک تھام کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اداروں میں ان اصولوں کو فروغ دیں اور ہر سطح پر ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔